عمر بھر کا تو نے پیمان وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگئے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے۔
کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجیے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خار ہوتا
- ہم نے مانا کے تغافل نہ کر سکو گے لیکن
- خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہوگے
مرزا غالب
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دئے ہوتے
ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تھی خنت گرم کہ غالب اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں