میرے ہم نفس میرے ہم نوا
مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں درد عشق سے جاں بہ
لب مجھے زندگی کی دعا نہ دے
میرے داغ دل سے ہے روشنی اسی
روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر
یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
مجھے چھوڑ دے مرے حال پر ترا
کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تری نوازش مختصر مرا درد
اور بڑھا نہ دے
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ
پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ
کہیں چمن کو جلا نہ دے
وہ اٹھے ہیں لے کے خم و سبو
ارے او شکیلؔ کہاں ہے تو
ترا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں